Shayri

ہمشیرہ بابر آفریدی شہیدؒ
​قرآں  کی  ہدایت  بھول  گئے سنت  کی  فضلت  بھول  گئے افسوس  کہ  ہم    رفتہ   رفتہ احکامِ  شریعت  بھول     گئے میداں  میں   نکلنا   چھوڑ  دیا دشمن  کو  کچلنا   چھوڑ   دیا گر  گر  کے  سنبھلنا چھوڑ دیا جنگوں کی مہارت بھول گئے بجلی  نے  چمکنا  چھوڑ  دیا بادل نے  گرجنا   چھوڑ   دیا شاہیں نے جھپٹنا چھوڑ دیا سب شیر شجاعت بھول گئے کیوں آپ نے خنجر  پھینک  دیا کیوں آپ   نے   نیزہ   توڑ   دیا کیوں آپ مسلماں ہو  کر بھی شمشیر سے  رغبت  بھول گئے کیوں ساری فصلیں ٹوٹ گئیں کیوں  دشمن  سر  پر   آپہنچا کیوں    آپ   بنے    آرام    طلب کیوں شوق شہادت بھول گئے میدان  میں   جانا   سنت   ہے تلوار    چلانا    سنت   ہے اور  زخم  بھی کھانا سنت ہے کیوں  آپ   یہ  سنت بھول گئے

Naats

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ(بُخاری:۱۹۰۳)

حضرت ابو ہریرہ رضِي اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے

Download Videos

اہم مسئلہ

روزہ کی حالت میں ٹیلی ویژن دیکھنا۔ قرآن کریم میں روزہ کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ آدمی میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو، جس سے معلوم ہوا کہ جو چیز بھی تقوی کے تقاضہ کے خلاف ہوگی ، وہ روزہ کی حالت میں بدرجہ اولی ممنوع قرار پائے گی ، اور اس کی وجہ سے اگر چہ روزہ ضابطہ کے مطابق نہ ٹوٹے ، لیکن ایسا شخص ثواب سے ضرور محروم رہے گا؛ لہذا جو مرد روزہ کی حالت میں فلمیں اور عریاں پروگرام دیکھتے ہیں وہ سخت گنہگار ہیں ، اور روزہ کے ثواب سے محروم ہیں ۔ اسی طرح جو عورتیں لطف اندوزی کے لئے مردوں کو دیکھیں وہ بھی ثواب سے محروم رہیں گی؛ لیکن محض ان باتوں کی وجہ سے فقہی طور پر روزہ ٹوٹنے کا حکم نہیں دیا جائے گا(کتاب النوازل/ج:۶/ص:۳۷۶)

یومِ اقبال

‎بسم اللہ الرحمن الرحیم ۹ نومبر ' یومِ اقبال یعنی اقبال کی پیدائش کا دن آداب سحر خیزی انگلستان کا برفیلا علاقہ ' زمستانی ہوائیں 'ہر طرف عیسائیت کا غلغلہ' ایمانی چرچوں کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں' حالات بالکل مخالف اور ناموافق' شب تاریک کا بے چین کر دینے والا سکوت اور ایک بندۂ مومن اپنے نرم وگرم بستر سے اٹھتا ہے'جسم و روح کو کپکپا دینے والے ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہے'مصلی بچھاتا ہے اور دو گانہ ادا کرتا ہے' عجز کا دامن پھیلا کر رب کی کبریائی بیان کرتا ہے ' راز و نیاز کرتا ہے' سردی کے ماحول میں اس کے گرم گرم آنسو رب کے حضور بہکر بندۂ مومن کے رخسار پر لکیریں بنا لیتے ہیں' کبھی ہچکیاں بندھ جاتی ہے تو کبھی آواز لڑکھڑا جاتی ہے اور ایسا روزانہ ہوتا ہے اور جب بندۂ مومن اپنے قلم پر قابو پاتا ہے تو ان سردی کی راتوں کا راز یوں فاش ہوتا ہے ہے کہ: گر چہ زمستانی ہوا میں تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے جس سے لندن میں بھی آدابِ سحرخیزی اقبال ایسے ہی اقبال نہیں بنے ۔کئی بار ملت کا درد ان سرد راتوں میں آنسوؤں کی شکل بنا کر آنکھوں کے چشموں سے سے جاری ہوا ہوگا اور اور ان ساکت و صامت راتوں میں کتنی مرتبہ امت کی بد حالی اور تنزلی کے شکوے اپنے رب کے پاک دربار میں سنائے ہوں گے۔تب جا کر کے اقبال کو شعر و سخن اور اس میں درد و گداز اور سوز وساز کا وہ تحفہ ملا ہوگا جسے سننے والا مسحور اور اور پڑھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ہے سچ ہے اقبال نے ہی تو کہا تھا: عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی 🖋🖋انس نرولوی🖋🖋